کتاب: زکوۃ کے مسائل - صفحہ 17
عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے مدینہ پہنچے۔ مدینہ کے تاجر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور غلہ خریدنا چاہا تاکہ بازار میں بیچا جا سکے اور لوگوں کی پریشانی دور ہو۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا ’’میں نے یہ غلہ شام سے منگایا ہے تم مجھے خرید پر کتنا نفع دیتے ہو؟‘‘ تاجروں نے دس کے بارہ پیش کیے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا’’ مجھے اس سے زیادہ ملتے ہیں۔‘‘تاجروں نے دس کے چودہ پیش کئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’مجھے اس سے بھی زیادہ ملتے ہیں۔‘‘انہوں نے پوچھا ’’ہم سے زیادہ دینے والا کون ہے؟ مدینہ کے تاجر تو ہم ہی ہیں۔‘‘حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’مجھے ہر درہم کے عوض دس درہم ملتے ہیں کیا تم اس سے زیادہ دے سکتے ہو؟‘‘تاجروں نے کہا’’نہیں!‘‘حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’تاجرو!گواہ رہنا میں یہ تمام غلہ مدینہ کے محتاجوں پر صدقہ کرتا ہوں۔‘‘(ازالۃ الخفا از شاہ ولی اللہ) سورہ آل عمران کی آیت[ لَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ] سن کر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا بہترین باغ صدقہ کر دیا اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی پسندیدہ لونڈی اللہ تعالیٰ کی راہ میں آزاد کر دی۔(تفسیر ابن کثیر) حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سات سو اونٹ بمعہ غلہ صدقہ کئے۔(ابو نعیم) حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں حمص(شام کا صوبہ)کے گورنر تھے۔ماہانہ تنخواہ ملتی تو گھر والوں کے لیے کھانے پینے کا سامان خرید کر باقی رقم صدقہ کر دیتے۔(ابونعیم) انفاق فی سبیل اللہ کا یہ ہے وہ معیار جس پراسلام اپنے پیروکاروں کو دیکھنا چاہتاہے۔ان صفات کے حامل افراد سے وہ سوسائٹی اور معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں کوئی شخص بھوکا یا ننگا نہیں رہتا،کوئی مصیبت زدہ یا پریشان حال شخص بے سہارا نہیں رہتا کوئی یتیم یا بیوہ احساس محرومیت کا شکار نہیں ہوتی۔اسی معاشرہ کی کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔’’مسلمانوں کی مثال باہمی محبت و مودت اور شفقت کے لحاظ سے جسمِ واحد کی سی ہے کہ اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔‘‘(بخاری و مسلم) زکاۃایک مثالی معاشی نظام کی بنیاد: کم و بیش دو سو سال پہلے’’حریت فرد‘‘اور’’حریت فکر‘‘ جیسے خوبصورت الفاظ کے پردے میں سرمایہ