کتاب: زکوۃ کے مسائل - صفحہ 13
لہٰذاہمیں خود کھانے کو ملے یا نہ انہیں ضرور دیناہے۔ اہلیہ نے کہا’ ’گھر میں بچوں کے کھانے کے لئے کچھ ٹکڑے رکھے ہیں اور توکچھ نہیں۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا’ ’بچوں کوکسی نہ کسی طرح بہلا کرسلادو اور ہم دونوں جب کھانا کھانے بیٹھیں تو تم کسی بہانے چراغ بجھادینا میں ویسے ہی پاس بیٹھارہوں گا اور مہمان سیر ہوکرکھانا کھالے گا۔ دونوں نےایساہی کیاصبح جب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’ ’کہ تم دونوں میاں بیوی کے عمل سے اللہ تعالیٰ خوش ہوئے ہیں اور ہنسے ہیں۔‘‘ اور یہ آیت نازل فرمائی۔
{ وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ }(الحشر:09)
’’اور خودحاجت مندہونے کے باوجود دوسروں کو اپنی ذات پرترجیح دیتے ہیں۔‘‘
مستدرک حاکم میں دیاگیا یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ ایک صحابی کو کسی نے بکری کی سری تحفہ بھجوائی۔انہوں نے یہ سوچ کر کہ فلاں شخص مجھ سے زیادہ حاجت مند ہے اس کے ہاں بھیج دی،اس نے یہی سوچ کر تیسرے آدمی کے پاس بھیج دی ۔اس طرح سات گھروں کا چکر لگانے کے بعد وہ سری پہلے صحابی کے گھر پہنچ گئی۔دور اول کے اسلامی معاشرہ میں ہمدردی و خیر خواہی اور قربانی و ایثار کی یہ اور ایسی ہی بے شمار دوسری مثالیں در اصل فطری نتیجہ تھیں انفاق فی سبیل اللہ کے احکام کا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عہد مبارک بلا شبہ ایمان اور عمل دونوں اعتبار سے خیر القرون (بہترزمانہ)ہے لیکن اس کے بعد بھی مسلمانوں کا معاشرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ان قائم کردہ زندہ جاوید روایات سے کبھی یکسر محروم نہیں رہا۔
ایک قدم اور آگے:
صاحب نصاب مسلمان کے مال میں زکاۃوہ کم سے کم مقدار ہے جسے ہرسال اداکئے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں رہ سکتا،لیکن اسلامی معاشرے میں محتاجوں،مسکینوں،یتیموں،بیواؤں اور معذوروں کے دکھ درد میں شرکت کے لئے نیز آسمانی آفات مثلًا زلزلہ ،سیلاب اور قحط وغیرہ کے موقع پر اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لئے اسلام میں انفاق فی سبیل اللہ کا معیار زکاۃسے کہیں آگے ہے ۔چنانچہ قرآن و حدیث میں بڑی کثرت سے نفلی صدقات اور خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے۔قرآن مجید کی چند آیات