کتاب: زکاۃ کے فضائل اور احکام - صفحہ 9
4) تجارتی مال : تجارتی مال پر بھی اسی طرح زکاۃ عائد ہوتی ہے جس طرح کہ نقدی ، سونے اور چاندی پر ،مال تجارت جتنا موجود ہو اس کی مارکیٹ کی قیمت کے مطابق زکاۃ ادا کی جائے اس میں جو رقم قرض کی ہے وہ اس سے وضع () کرلی جائے ، اور جو قرض آنا ہے اس کی زکاۃ بھی ادا کی جانے والی زکاۃ کی رقم میں شامل () کی جائے اور اس طرح تجارتی مال کی زکاۃ ادا کی جائے ، البتہ کارخانے یا کمپنی کی مشنری وغیرہ کی زکاۃ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 5) )زرعی پیداوار:زرعی پیداوار میں بھی زکاۃ ہے ، لیکن شرعی اصطلاح میں اسے زکاۃ کے بجائے عُشر (یا نصف عشر ) کہا جائے گا ، زرعی پیدوار کی زکاۃ کے متعلق فرمان الٰہی ہے : ترجمہ : ’’ اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو، اور ہم نے تمھارے لئے زمین سے جن چیزوں کو نکالا ہے ، ان میں سے خرچ کرو‘‘ ۔ [البقرۃ:267 ] اس آیت سے ثابت ہوا کہ زمینی پیداوار مثلا گیہوں ، جَو ، چاول ، چنا اور ہمہ قسم کی دالیں اور روغنی بیج جیسے مونگ پھلی ، سرسوں وغیرہ اورروغنی پھل جیسے زیتون وغیرہ ،اور ان تمام پھلوں پر جنہیں خشک کرکے رکھا جاسکتا ہے ، جیسے کھجور،سوکھا انگور (منقع )بادام ، پستہ ، اخروٹ وغیرہ پر بھی زکاۃ فرض ہے ۔ زرعی پیداوار کے نصابِ زکاۃ کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ترجمہ : ’’ پانچ وسق سے کم میں زکاۃ نہیں ‘‘[متفق علیہ ] ۔ پانچ وسق کی مقدار موجودہ