کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 98
غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کھاد اور سپرے وغیرہ کے اخراجات واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ اس وقت زمین کی پیداوار بھی اتنی نہیں ہوتی تھی جتنی اب کھاد اور سپرے وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرلی جاتی ہے۔ یعنی اگر یہ ایک اضافی خرچہ ہے تو اس کی تلافی بھی زیادہ پیداوار کے ذریعے سے ہو جاتی ہے جو کھاد اور سپرے کا نتیجہ ہے۔ اس لیے کھاد اور سپرے کا خرچہ نکالے بغیر کل فصل ہی سے عشر نکالا جائے گا۔
سوال: حصے پر لی ہوئی زمین کی پیداوار سے عُشر کس طرح نکالا جائے گا؟
جواب: جو زمین حصے پر لی جائے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا عشر مالک اور مزارع دونوں اپنے اپنے حصے میں سے ادا کریں گے۔ بشرطیکہ دونوں کا اپنا اپنا حصہ نصاب کو پہنچ جائے۔ ورنہ جس کا حصہ نصاب سے کم ہو گا، وہ عشر سے مستثنیٰ ہو گا۔
سوال: ٹھیکے والی زمین میں عشر زمین کا مالک ادا کرے گا یا کاشت کرنے والا؟
جواب: ٹھیکے والی زمین سے حاصل ہونے والی فصل کا مالک چونکہ کاشت کار ہے اس لیے اس کا عشر کاشت کار ہی کو دینا پڑے گا۔
سوال: کاشتکار ٹھیکے پر لی ہوئی زمین کی پیداوار کا عشر ٹھیکہ ادا کرنے کے بعد باقی ماندہ جنس میں سے ادا کرے گا یا کل آمدنی میں سے؟
جواب: ’وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْاَرْضِ‘ کے حکم کے مطابق ٹھیکے کی رقم وضع کیے بغیر زمین سے نکلنے والی ساری آمدنی میں سے عشر ادا کرے گا۔
سوال: اگر کاشتکار نے قرض لے کر ٹھیکہ ادا کیا ہو یا ابھی اس کے ذمے ہو اور زمین سے جتنی فصل حاصل ہوئی ہے سب ٹھیکے میں جارہی ہو تو اسے عشر ادا کرنا پڑے گا یا نہیں ؟