کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 97
کرنے (زکاۃ و عشر نکالنے) کا حکم مطلق یعنی بغیر کسی استثنا کے ہے جس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ کسی بھی قسم کا خرچ نکالے بغیر آمدنی یا پیداوار اگر حد نصاب کو پہنچ جائے تو وہ قابل زکاۃ اور قابل عشر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کی بابت کوئی وضاحت منقول نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی فصلیں کاشت کرنے، اس کی نگہداشت اور کٹائی، گہائی، وغیرہ پر مشقت اور پیسہ خرچ ہوتا تھا۔ مگر آپ نے ان اخراجات کو وضع کرنے کا حکم نہیں دیا، حالانکہ اس کی گنجائش ہوتی تو آپ ضرور اس کا حکم دیتے، جیسے آپ نے بارانی اور غیر بارانی زمین کی پیداوار میں فرق کیا ہے۔ زمین اگر بارانی ہے یعنی بارش، چشموں یا قدرتی نہروں وغیرہ سے سیراب ہوتی ہے تو اس میں چونکہ مشقت کم ہے یا ہے ہی نہیں (پانی کی سیرابی کی حد تک) تو اس میں عُشر کی مقدار زیادہ رکھی یعنی دس مَن میں سے ایک مَن۔ اور جس زمین کو کنویں (راہٹ کے ذریعے سے) یا اب ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعے سے سیراب کیا جائے تو چونکہ اس میں مشقت زیادہ ہے، اس میں اللہ کی راہ میں نکالے جانے والے حصے کو عشر کی بجائے نصف العشر(پانچواں حصہ) یعنی 20 من میں سے ایک من قرار دیا۔ لیکن کل فصل (پیداوار) میں سے پانی کی محنت و مشقت (اخراجات) کو نکال کر باقی میں سے نکالنے کا حکم نہیں دیا۔
یہاں ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آج کل کھاد اور سپرے وغیرہ کے جو اخراجات ہوتے ہیں اور وہ کافی ہوتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو ان کا تصور ہی نہیں تھا، اس لیے اب ہمیں اس کی بابت سوچنا چاہیے۔
یہ سوال واقعی ذہنوں میں اٹھتا ہے اور اس کا شرعی حل ہونا چاہیے۔ جب ہم اس پر