کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 96
یہ حدیث درج ذیل ہے: ((کَانَ یُؤْخَذُ فِي زَمَانِہِ مِنْ قِرَبِ الْعَسَلِ، مِنْ کُلِّ عَشْرِ قِرَبٍ قِرْبَۃٌ مِّنْ أَوْسَطِہَا)) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شہد کی مشکوں میں سے ہر دس مشکوں میں ایک درمیانی مشک زکاۃ میں لی جاتی تھی۔‘‘[1] وقف شدہ زمینیں جو زمینیں وقف ہیں ، ان کی پیداوار میں زکاۃ نہیں ، کیونکہ وہ تو پہلے ہی فی سبیل اللہ وقف (صدقہ) ہیں ۔ چند اہم سوالات کی وضاحت سوال: فصل پر اٹھنے والے اخراجات مثلاً کھاد، بجلی کے بل، سپرے، ہل، گہائی، مزدوری وغیرہ نکال کر عشر دیا جائے گا یا کل پیداوار سے؟ جواب: اللہ تعالیٰ نے زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے اپنا حق نکالنے کا حکم دیا ہے: ﴿ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ﴾ ’’خرچ کرو ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو تم نے کمائی ہیں اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہے۔ ‘‘[2] اس آیت میں اپنی کمائی (بذریعۂ تجارت وغیرہ) سے اور زمین کی پیداوار سے خرچ
[1] إرواء الغلیل، حدیث: 810۔ [2] البقرۃ 267:2۔