کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 93
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم جاری فرمایا کہ انگور کا اندازہ کھجور کی طرح لگایا جائے اور اس کی زکاۃ منقٰی کی صورت میں لی جائے جیسا کہ کھجور کی زکاۃ خشک کھجور (چھوارے) سے وصول کی جاتی ہے۔ کھجور اور انگور کا اندازہ کرنے کے بعد اب باغ کا مالک آزاد ہے کہ اپنا پھل تازہ بتازہ بیچ دے، خود کھائے یا دوست احباب کو تحفے میں دے دے۔‘‘ استاذ محترم رحمہ اللہ اس طریقے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اندازے کا یہ طریقہ فریقین (فقراء اور اصحابِ مال) کی مصلحت کے پیش نظر جاری کیا گیا ہے، کیونکہ یہ پھل خشک اور تازہ دونوں طریقے سے کھائے جاتے ہیں ، اس لیے اگر اندازے کے بغیر ان کے استعمال کی اجازت ہوتی، تو فقراء کا سراسر نقصان تھا اور اگر عشر اداکیے بغیر ان کے استعمال سے روک دیا جاتاتو اصحابِ مال خسارے میں رہتے، اور طرح طرح کی مشکلات میں مبتلا ہوجاتے۔ اندازہ لگانے سے فقراء کے نقصان کا خطرہ جاتا رہا اور اصحابِ مال کے لیے بھی کوئی دِقت باقی نہ رہی۔ اس طریقے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس میں صاحبِ مال کی ہیرا پھیری اور خیانت کا اندیشہ باقی نہیں رہتا، فقراء کا حق اس کے ذمے متعین ہوجاتا ہے۔ عامل، وقت پر آکر وصول کرے گا۔ شریعت کی طرف سے اس سلسلے میں اربابِ مال کو ایک رعایت بھی دی گئی ہے، جس کا ذکر حدیث میں یوں آتاہے۔ حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم ارشاد فرمایا: ((إِذَا خَرَصْتُمْ فَجُذُّوا فَدَعُوا الثُّلُثَ فَإِنْ لَّمْ تَدَعُوا الثُّلُثَ فَدَعُوا الرُّبُعَ))