کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 90
کیونکہ ان میں بھی ذخیرہ کرنے اور خوراک کی علت موجود ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: فقہ السنۃ، ج: اول، مبحث الزکاۃ) تاہم جو پھل زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے، وہ سبزی کے حکم میں ہوں گے، یعنی ان میں زکاۃ نہیں ہوگی، ان کے مالک سال کے بعد، اگر ان کے پاس نقدی نصاب کی مقدار میں یا اس سے زیادہ ہوگی، تو وہ ڈھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ ادا کریں گے۔
کپاس سبزی میں داخل نہیں ، اس میں سے (حسب تصریح مذکور) عُشر یا نصف العشر ادا کیا جائے۔[1]
یہی حکم زیرے اور دھنیے وغیرہ کا ہوگا، کیونکہ ان کا ذخیرہ ہوسکتاہے۔ کماد کے سلسلے میں مولانا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے حسب ذیل تفصیل بیان کی ہے:
’’کماد کھیت میں چارہ کے لیے فروخت کردیاجائے تو اس پر عشر نہیں ، سبزی کے حکم میں ہے۔ اگر خود چرایاجائے تو اس کا بھی یہی حکم ہے، لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ وہ گڑ بنانے کے قابل نہ ہوا ہو۔ اگر کماد (گنا) گڑ شکر بنانے کے قابل ہوچکا تو اب خواہ فروخت کرے یا خود چرائے، اس پر عشر پڑ جائے گا۔ اس صورت میں اندازہ لگایا جائے کہ اس سے کتنا گڑ شکر نکلے گا، اسی اندازہ سے عشر دیا جائے، مثلاًاگر گڑشکر کا اندازہ پانچ وسق (20من پختہ) ہے تو بیس من کی قیمت کادسواں یا بیسواں حصہ دیاجائے۔ پونڈا کماد میں یہ شرط نہیں ، کیونکہ اس سے اصل مقصد گڑشکر بنانا نہیں ہوتا، وہ بہرحال سبزی کے حکم میں رہے گا۔ ہاں اگر اس کا کوئی گڑ شکر بنالے توپھر عشر پڑجائے گا۔‘‘[2]
[1] سنن أبي داود، باب الخراج ۔
[2] فتاوی اہل حدیث جلد: دوم، ص: 529,528۔