کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 9
ہے…‘‘[1]
4. زکاۃ کے معنی
لغوی اعتبار سے زکاۃ کے ایک معنی بڑھوتری اور اضافے کے اور دوسرے معنی پاک اور صاف ہونے کے ہیں ۔ شرعی اصطلاح کے مطابق زکاۃ میں دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہیں ۔ زکاۃ کی ادائیگی سے بقیہ مال پاک صاف ہوجاتا ہے اور عدم ادائیگی سے اس میں غرباء و مساکین کا حق شامل رہتا ہے، لہٰذا وہ مال تب ہی پاک ہوتا ہے جب اس سے مستحقین کا حصہ نکالا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا:
((إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَفْرِضِ الزَّکَاۃَ إِلَّا لِیُطَیِّبَ مَا بَقِيَ مِنْ أَمْوَالِکُمْ))
’’اللہ نے زکاۃ اسی لیے فرض کی ہے کہ وہ تمہارے بقیہ مال کو پاک کردے۔‘‘[2]
یہی بات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اثر میں بیان ہوئی ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ سورۂ توبہ کی آیت (35)، جس میں سونا چاندی جمع کرکے رکھنے پر سخت وعید آئی ہے، زکاۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی ہے:
((فَلَمَّا أُنْزِلَتْ جَعَلَہَا اللّٰہُ طُہْرًا لِلْأَمْوَالِ))
’’جب وہ آیت نازل ہوگئی تو اللہ نے زکاۃ کو مالوں کی پاکیزگی کا ذریعہ بنادیا۔‘‘[3]
قرآن مجید میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے:
[1] سنن أبي داود، الزکاۃ، باب فی زکاۃ السائمۃ، حدیث: 1575۔
[2] سنن أبي داود، الزکاۃ، باب في حقوق المال، حدیث: 1664۔
[3] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب ما أدي زکاتہ فلیس بکنز، حدیث: 1404۔