کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 89
اور حدیث دونوں کے الفاظ عام ہیں کہ زمین کی ہر پیداوار میں زکاۃ ہے۔ اس عموم کا تقاضا ہے کہ سب میں سے عشر یا نصف العشر نکالا جائے اس عموم سے صرف وہی چیز خارج ہوگی جس کا استثناء حدیث سے ثابت ہوگا، جیسے سبزیوں کا استثناء حدیث سے ثابت ہے، اس لیے ان میں عشر یا نصف العشر نہیں ہو گا۔ تاہم سبزیوں کے استثناء سے بالواسطہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمین کی جو پیداوار بھی زیادہ عرصے تک محفوظ رکھی جاسکتی ہے، اس میں زکاۃ (عشر یا نصف عشر) ادا کیا جائے۔ اسی لیے مذکورہ عموم کے قائل ائمہ، زمین کی پیدوار کے لیے دو شرطیں ضروری قرار دیتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ ماپی تولی جانے والی ہوں ۔ دوسری یہ کہ وہ بطور خوراک ذخیرہ کی جاتی ہوں ۔ اس موقف کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں : ((لَیْسَ فِي حَبٍّ وَّلَا تَمْرٍ صَدَقَۃٌ، حَتَّی یَبْلُغَ خَمْسَۃَ اَوْسُقٍ)) ’’کسی دانے (غلے) اور کجھور میں اس وقت تک زکاۃ نہیں جب تک وہ پانچ وسق تک نہ پہنچ جائے۔‘‘[1] اس حدیث میں حَب (دانے، یعنی غلے) کا لفظ عام ہے جو ہر قسم کے غلے کو شامل ہے، اس لیے اس میں تمام مذکورہ اجناس آجاتی ہیں جو کھائی جاتی اور ذخیرہ کی جاتی ہیں ۔ اسی طرح جو پھل ہیں ، ان میں سے آئندہ فصل تک رہنے والے پھل بھی مذکورہ علماء کے نزدیک اس پیداوار ہی سے سمجھے جائیں گے جن میں زکاۃ نکالی جاتی ہے،
[1] صحیح مسلم، الزکاۃ، باب لیس فیما دون خمسۃ أوسق صدقۃ، حدیث: 979۔