کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 85
1. زرعی پیداوار کا نصاب اور اس کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ﴾ ’’اے ایمان والو! اپنی حلال پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو اور ان چیزوں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالیں ۔‘‘[1] یہاں انفاق سے مراد، انفاق فی سبیل اللہ ہے اور انفاق فی سبیل اللہ میں نفلی اور فرضی دونوں قسم کا انفاق شامل ہے۔ نفلی انفاق کو عام طور پر صدقہ اور فرضی انفاق کو زکاۃ اورعُشر کہا جاتا ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس آیت میں جائز تجارت کے ذریعے سے کمائے ہوئے مال اور زمین کی پیداوار یعنی دونوں میں سے انفاق کا حکم بطور وجوب کے ہے، اس لیے یہ آیت دونوں قسم کے مالوں میں زکاۃ کے وجوب کی دلیل ہے اور حدیث رسول میں اس کی مزید وضاحت کردی گئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بارانی اور چشموں سے سیراب ہونے والی زمین اسی طرح زیر زمین نمی والی زمین کی پیداوار میں عشر (دسواں حصہ) ہے اور جس زمین کو رہٹ وغیرہ
[1] البقرۃ 267:2۔