کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 80
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے لکھا: ((یَأْمُرُ بِرَدِّہِ إِلٰی أَہْلِہِ وَ یُؤْخَذُ زَکَاتُہُ لِمَا مَضٰی مِنَ السِّنِینَ ثُمَّ عَقَّبَ بَعْدَ ذٰلِکَ بِکِتَابٍ، أَنْ لَّا یُؤْخَذُ مِنْہُ إِلَّا زَکَاۃٌ وَّاحِدَۃٌ، فَإِنَّہُ کَانَ ضِمَارًا)) ’’ان کا مال مالکوں کو لوٹا دیاجائے اور ان سے تمام گزشتہ سالوں کی زکاۃ وصول کی جائے۔ اس کے فورًا بعد ہی ایک اور مکتوب آپ نے بھیجا اور اس میں لکھا کہ ان سے صرف ایک سال ہی کی زکاۃ وصول کی جائے۔ کیونکہ یہ مالِ ضمار ہے۔‘‘[1] پراویڈنٹ فنڈ: بعض علماء نے پراویڈنٹ فنڈ کو بھی مالِ ضمار شمار کیا ہے ،کیونکہ یہ بھی مالک کا ایسا مال ہے جو اس کے قبضے اور تصرف میں نہیں ہے۔ اس لیے یہ فنڈ جب بھی اسے ملے، تو ایک سال کی زکاۃ اس میں سے نکال دے، واللہ اعلم۔ 39. بیمے کی رقم؟ جس نے بیمہ کرا رکھا ہو، اسے یا اس کے ورثاء کو بیمے کی رقم یک مشت مل جائے، تو کیا کیا جائے؟ بیمہ شرعًا ناجائز اور حرام ہے، یہ سرمایہ دارانہ سودی نظام کا ایک حصہ ہے جس سے معاشرے میں خود غرضی اور خونخواری ہی کی فضا قائم ہوتی ہے۔ جبکہ زکاۃ سے اس کے برعکس ہمدردی واخوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، بیمے کی رقم کسی ایک شخص یا اس کے نامزد وارث کو ملتی ہے جو اس کا پریمیئر ادا کرتا ہے، غریب کو تھوڑی رقم
[1] موطأ الإمام مالک، الزکاۃ، باب الزکاۃ في الدین: 253/1، طبع جدید ۔