کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 8
فَعَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ ))
’’اللہ کی قسم! اصل میں اللہ نے ابوبکر کو اس بارے میں شرحِ صدر عطا فرمایا تو میں نے جان لیا کہ وہی (موقف ابوبکر) حق ہے۔‘‘[1]
اور اس طرح اس امر پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا کہ زکاۃ کی ادائیگی سے قولًا یا عملًا انکار، اسلام سے خروج کا باعث ہے۔ اور انکار کرنے والوں کے پاس اگر کچھ قوت و طاقت ہو، چاہے وہ اعتقادًا وجوب کے قائل ہوں تو ان سے قتال کیا جائے گا جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا اور صحابہ نے ان سے موافقت فرمائی۔
3. زکاۃ نہ دینے والے کا آدھا مال بھی ضبط کر لیا جائے گا
واقعہ یہ ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں زکاۃ کی عدم ادائیگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان وجوب زکاۃ کا اعتقاد رکھنے کے باوجود زکاۃ ادا نہ کرے تو اسلامی مملکت بالجبر زکاۃ وصول کرنے کے علاوہ اس کا آدھا مال بھی سزا کے طور پر اپنے قبضے میں لے لے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((وَمَنْ مَنَعَھَا فَاِنَّا آخِذُوْھَا وَشَطْرَمَالِہِ، عَزْمَۃً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا عَزَّوَجَلَّ۔ الحدیث))
’’اور جو زکاۃ روکے گا تو ہم اس سے وصول کریں گے اور آدھا مال بھی (اس کا) لے لیں گے، یہ ہمارے رب کے واجبات میں ایک واجب (حکم)
[1] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب1، حدیث: 1400، و صحیح مسلم، الإیمان، باب الأمر بقتال الناس حتی یقولوا لا إلہ إلا اللّٰہ، حدیث: 20۔