کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 77
35. مقروض پر زکاۃ ہے یا نہیں ؟ جس شخص نے کسی سے قرض لیا ہے تو ظاہر بات ہے کہ حسب وعدہ یا حسب تیسیر اس قرض کا واپس کرنا ضروری ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مقروض اس مال کا مالک نہیں ہے، اس لیے اس کے ذمے اس کی زکاۃ نہیں ، بلکہ اس کی زکاۃ مالک (قرض دہندہ) کے ذمے ہے، البتہ مقروض کے پاس جو اس کا اپنا مال ہے، اگر وہ مال اتنا ہی ہے کہ جس سے وہ صرف قرض ہی اتارسکتاہے، تو اس کے اپنے مال میں بھی زکاۃ نہیں ہوگی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنا قرض اتارے۔ تاہم اگر اس کے پاس کوئی جائیداد یا ذریعۂ آمدنی ایسا ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے کماکر نہایت آسانی سے قرض اتار سکتا ہے، لیکن تساہل سے کام لیتا ہے۔ تو ایسے شخص کا معاملہ مشکوک ہے، اسے محض اس قرض کی وجہ سے جسے وہ بآسانی اتارسکتا ہے، زکاۃ سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ وہ صاحب نصاب ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے۔ 36. قرض کو زکاۃ سے منہا کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ کیاجاسکتا ہے، بشرطیکہ مقروض، فقیر ومسکین قسم کا آدمی ہو، کماکر اس کے لیے قرض کا بوجھ اتارنا نہایت مشکل ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ قرض معاف کرنے سے مقصد، اس مقروض کا بوجھ کم کرکے اللہ کی رضا کا حصول اور اس کے حکم﴿وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ ﴾ (البقرۃ 280:2) پر عمل کرنا ہو، کوئی اور مقصد اور مفاد نہ ہو۔ اس صورت میں قرض دہندہ شخص اس قرض کو زکاۃ سے منہا کرسکتا ہے۔ کیونکہ زکاۃ کی ادائیگی کے لیے یہ