کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 70
((لَمْ یَثْبُتْ عَنْ أَحَدٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہ عَنْہُمْ بِسََنَدٍ صَحِیحٍ عَدَمُ الْقَوْلِ بِوُجُوبِ الزَّکَاۃِ فِي مَالِ الصَّبِيِّ)) امام ابن حزم، جو یتیم کے مال میں زکاۃ کے قائل نہیں ، لکھتے ہیں : ((والعجب ان المحفوظ عن الصحابۃ رضی اللّٰه تعالیٰ عنھم، ایجاب الزکاۃ فی مال الیتیم)) (المحلیٰ) ’’عجیب بات یہ ہے کہ صحابہ سے یہی بات محفوظ (ثابت) ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ واجب ہے۔‘‘[1] شیخ احمد شاکر امام ابن حزم کے موقف کی تردید میں المحلیٰ کے حاشیے میں لکھتے ہیں : ((وکان الاصح ان الزکاۃ تجب فی المال …)) ’’زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ واجب ہے۔‘‘ گویا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک بھی یہی ہے کہ یتیم کے مال میں سے زکاۃ نکالی جائے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ احناف، جو یتیم کے مال میں زکاۃ کے قائل نہیں ، وہ کہتے ہیں کہ یتیم کے مال میں صدقۃ الفطر کی ادائیگی ضروری ہے۔ اسی طرح زرعی پیداوار میں عُشر ادا کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ اس تفریق کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے کہ یتیم کی زرعی پیداوار میں سے عشر نکالا جائے لیکن اس کے دوسرے مال کو زکاۃ سے مستثنیٰ کردیا جائے۔ بہر حال مال کا یہ حق کہ اس میں سے زکاۃ نکالی جائے، ہر قسم کے مال پر اس کا
[1] تحفۃ الأحوذي شرح جامع الترمذي: 15/2۔