کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 68
جاتالیکن شرعی نصوص میں یہ استثنا نہیں پایا جاتا۔ علاوہ ازیں احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت بھی فرمادی ہے کہ یتیم کے مال کو بغیر تجارت کے نہ چھوڑا جائے کہ زکاۃ ہی اس کو ختم کردے، فرمایا: ((أَلَا مَنْ وَّلِيَ یَتِیْمًا لَہُ مَالٌ فَلْیَتَّجِرْ فِیہِ وَ لَا یَتْرُکُہُ حَتَّی تَأْکُلَہُ الصَّدَقَۃُ)) ’’آگاہ رہو! جو شخص کسی صاحبِ مال یتیم کا والی اور سرپرست بنے، اسے چاہیے کہ اس کے مال کو تجارت میں لگا دے اور اس کو یوں ہی نہ چھوڑے رکھے کہ زکاۃ اس کو کھاجائے۔‘‘[1] یہ روایت اگرچہ سندًا کچھ کمزور ہے لیکن دوسری روایات سے اس کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے،، چنانچہ حافظ ابن حجر، بلوغ المرام، کتاب الزکاۃ، حدیث: 595 میں یہ حدیث نقل کرکے لکھتے ہیں : ((و إسنادہ ضعیف ولہ شاہد مرسل عند الشافعي)) نیز ’’تلخیص الحبیر 157/1، حدیث: 824، میں بھی اس کی تائید میں دوسری روایات نقل کی گئی ہیں ۔ (دیکھیے کتاب الزکاۃ) ان احادیث کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر، حضرت علی، عبد اللہ بن عمر، حضرت عائشہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ بھی یتیم کے مال میں سے زکاۃ نکالنے کے قائل ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمل صحیح روایت سے ثابت ہے، حضرت عبد الرحمن بن
[1] جامع الترمذي، الزکاۃ، باب ما جاء في زکاۃ مال الیتیم، حدیث: 641