کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 65
الضَّرُورَۃِ فَلْیَتَنَبَّّہْ اَہْلُ الزَّمَانِ لِہٰذِہِ النُّکْتَۃِ[1] ایک اور مقام پر انہوں نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ ٹیکسوں میں بے پناہ اضافے کی ضرورت اس وقت لاحق ہوتی ہے جبکہ امراء و حکامِ سلطنت اپنا معیارِزندگی انتہائی بلند اور پر تکلف کرلیتے ہیں جس کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں بھاری اور ناجائز ٹیکس لگانے پڑتے ہیں اس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر آخرت فراموشی اور دنیاداری کا رجحان پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ قبل از اسلام کی مسیحی اور ایرانی حکومتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’صدیوں سے آزادانہ حکومت کرنے اور دنیا کی لذتوں میں منہمک رہنے، آخرت کو یکسر بھول جانے اور شیطان کے پورے اثر میں آجانے کی وجہ سے ایرانیوں اور رومیوں نے زندگی کی آسانیوں اور سامان میں بڑی موشگافی اور نازک خیالی پیدا کرلی تھی اور اس میں ہر قسم کی ترقی اور نفاست میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور فخر کرنے کی کو شش کرتے تھے۔ دنیا کے مختلف گوشوں سے ان مرکزوں میں بڑے بڑے اہل ہنر اور اہل کمال جمع ہوگئے تھے جو اس سامانِ آرائش و راحت میں نزاکتیں پیدا کرتے تھے اور نئی تراش خراش نکالتے تھے، ان پر فورًا عمل ہوجاتا تھا اور اس میں برابر اضافے اور جدتیں ہوتی رہتی تھیں اور ان باتوں پر فخر کیاجاتا تھا۔ زندگی کا معیار اتنا بلند ہوگیا کہ امراء میں سے کسی کا ایک لاکھ درہم سے کم کا پٹکا باندھنا اور تاج پہننا معیوب تھا۔ اگر کسی کے پاس عالی شان محل،حمام، باغات، خوش خوراک اور تیار جانور اور خوش روجوان اور غلام نہ ہوتے، کھانے میں تکلفات اور لباس وپوشاک میں تجمل نہ
[1] حجۃ اللّٰہ البالغۃ:1/ 45، باب سیاسۃ المدینۃ۔