کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 63
’’ٹیکسوں کی وصولی کے لیے عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور انہیں باور کرایا جائے کہ ان سے وصول ہونے والا ٹیکس ان کی ہی فلاح وبہبود پر خرچ ہوگا اگر حکومت عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوجائے تو وہ یقینا اپنے حصے سے بڑھ کر ٹیکس ادا کرنے کو تیار ہوں گے، انکم ٹیکس کی موجودہ شرح بہت زیادہ ہے قارئین کو شاید حیرانی ہو کہ بینکنگ کمپنیوں کو اپنے منافع کا 60 فیصد ٹیکس کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ باقی کمپنیوں کے لیے یہ شرح 43فیصد ہے اس طرح عام افراد کے لیے ٹیکس کی شرح 35 فیصد تک ہے یہ شرح کم کی جائے اور اس کو عقلی تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر پانچ لاکھ روپے سالانہ کمانے والی کمپنی کو یہ پتہ ہو کہ اس میں سے نصف انکم ٹیکس کی مد میں چلا جائے گا تو وہ اپنی آمدن پانچ کی بجائے دو لاکھ ہی دکھائے گی، اسی طرح عام کاروباری لوگ بھی زیادہ شرح ٹیکس کی وجہ سے اپنی آمدن صحیح نہیں دکھاتے جس سے خرابی کے راستے کھلتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قابل ٹیکس آمدن کی کم از کم حد میں اضافہ کیاجائے۔[1] 28. ٹیکسوں کی کثرت، ملک وقوم کے لیے نیک فال نہیں ٹیکسوں کی کثرت اور اس کی تباہ کاری کا مسئلہ زیر بحث آہی گیا ہے، تو اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ کا موقف بھی پڑھ لیا جائے، جس میں عبرت بھی ہے اور تنبیہ بھی۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے دو باتوں کو اپنے زمانے کی مغل حکومت کے روبہ زوال ہونے اور تباہی وبربادی کا بڑا سبب قرار دیا ہے۔ ایک، خزانۂ حکومت میں اس قسم کا تصرف کہ چند لوگ مختلف ہتھکنڈوں سے
[1] روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور، 3جون 2001ء۔کالم ’’درون پردہ‘‘ رحمت علی رازی۔