کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 51
ماہانہ یا سالانہ تعاون کا، اسی طرح معذور، اپاہج اور مستقل بیماروں کی خبرگیری اور علاج و ضروریات کا اہتمام کیا جائے۔ اس قسم کے انتظام پر جتنا بھی خرچ آئے گا، وہ اسی زکاۃ کا حصہ ہوگا، کسی جماعت یا ادارے کو اس پر اپنی طرف سے خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ آخر دینی مدارس کا سارا سلسلہ بھی تو اسی نظام زکاۃ و صدقات پر قائم ہے۔ اگر اسے مزید وسعت دے دی جائے اور اہل خیر کو آمادہ کیا جائے کہ وہ ساری زکاۃ ایک ہی جگہ جمع کریں اور تفتیش و تحقیق کے بعد ضرورت مندوں میں ان کی ضروریات کے مطابق یکمشت یا ماہوار یا سالانہ تقسیم کریں ، تو یقینا گداگری کی لعنت کے خاتمے میں بھی یہ ادارے نہایت مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں اور معاشرے کے سفید پوش ضرورت مندوں کی آبرومندانہ کفالت و تعاون کا اہتمام کرنے میں بھی۔ 19. خاوند اور زیر پرورش یتیموں پر رقم خرچ کرنا جائز ہے بیوی اور اپنے بچوں کی کفالت مرد کی ذمے داری ہے، جیسے والدین کی خدمت اولاد کی ذمے داری ہے، اس لیے ایک مرد زکاۃ کی رقم نہ تو اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرسکتاہے نہ اپنے والدین پر، البتہ بیوی اگر مال دار ہو اور خاوند غریب، تو وہ اپنی زکاۃ اپنے خاوند کو دے سکتی ہے۔ اسی طرح زیر پرورش یتیم بچوں پر زکاۃ کی رقم کا خرچ کرنا جائز ہے، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی اپنے خاوند عبد اللہ پر اور اپنے زیر کفالت یتیم بچوں پر زکاۃ کی رقم خرچ کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو صدقے کی ترغیب دی، تو انہوں نے اپنے خاوند عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ تم جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو میں تم پر اور اپنے زیر