کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 49
زکاۃ دی جائے؟ کیونکہ زکاۃ کا مقصد تو ضرورت مندوں کی حاجات کو پورا کرنا یا ان کو ان کے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ پہلا مقصد تو وقتی طور پر تھوڑی سی امداد کرکے بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن کسی مستحق زکاۃ کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اس طرح امداد کی جائے کہ وہ کسب معاش کے قابل ہوجائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ : ((حَتَّی یُصِیبَ قِوَامًا مِّنْ عَیْشٍ أَوْ سِدَادً مِّنْ عَیْشٍ)) بھی اسی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں ، یعنی ضرورت مند سائل کو جب اتنی امداد مل جائے کہ وہ گزران حاصل کرنے کے قابل ہوجائے، تو پھر اس کے لیے سوال کرناجائز نہیں ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے تو پھر اہل ثروت کا یہ رویہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ کسی بھی ضرورت مند کی بھر پور طریقے سے امداد نہیں کرتے، بلکہ ہر سائل اور ضرورت مند کو تھوڑی تھوڑی رقم دے کر انہیں مستقل گداگر بنا دیتے ہیں ۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر کسی سائل کا کاروبار ختم ہوگیا ہے، جو پہلے وہ کیا کرتاتھا، کسی کی فصل خراب ہوگئی ہے جس سے اس کے سال بھر کا خرچہ پورا ہوتا تھا، کوئی دست کار ہے لیکن وہ آلات و اوزاریا چھوٹی موٹی مشینری خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ کوئی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگیا ہے جس کے علاج کے لیے لاکھوں روپے کی ضرورت ہے، جیسے بائی پاس اپریشن وغیرہ۔ توایسے لوگوں کے حالات کی تحقیق کرکے ان کی بھر پور امداد کی جائے، جس کو کاروباری تجربہ ہے، اس کو اس کے کاروبار کی بحالی میں مدد دی جائے، کاشت کار اور کسان کے ساتھ اس کو درپیش حالات کے مطابق،