کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 40
ایک یہ کہ صدقہ خفیہ طور پر کیا جائے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک زکاۃ کی رقم کی وضاحت نہ ہو، زکاۃ ادا نہیں ہوتی۔ ایسا سمجھنا غلط ہے۔ کسی مستحق کو دیتے وقت اسے یہ بتلانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکاۃ کی رقم ہے جو میں تمہیں دے رہا ہوں ، البتہ اس کا مستحق زکاۃ ہونا ضروری ہے۔ تاہم اداروں اور مدارس میں زکاۃ دیتے وقت صراحت کردی جائے تو بہتر ہے تاکہ وہ زکاۃ کو زکاۃ کے مصارف میں خرچ کریں ، دوسری مدات میں انہیں استعمال نہ کریں ، بہر حال زکاۃ دیتے وقت جہاں تک اخفاء ہوسکے بہتر ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنا، (یعنی عرش کا) سایہ نصیب فرمائے گا اور یہ وہ دن ہوگا کہ اس سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ ان سات آدمیوں میں ایک آدمی وہ ہوگا:
((رَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاہَا حَتَّی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِینُہُ))
’’جس نے چھپ کر صدقہ کیا،حتی کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی یہ علم نہ ہوسکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔‘‘[1]
مطلب یہ ہے کسی غریب کو زکاۃ دے کر یا اس کی امداد کرکے ڈھنڈورا نہیں پیٹا، لوگوں کو نہیں بتلایا، اس کا علم اللہ کے سوا صرف اسی شخص کو ہے جس کو اس نے زکاۃ دی یا اس کے سامنے تعاون کیا، البتہ اس سے صرف وہ صورت مستثنٰی ہے جہاں بطور ترغیب کے لوگوں کے ساتھ صدقہ کیاجائے تاکہ اسے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی خرچ
[1] صحیح البخاري، الزکاۃ باب الصدقۃ بالیمین، حدیث: 1423۔