کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 35
موقوف نہیں ہے کہ رشتہ داروں سے آپ کے تعلقات صحیح ہوں اور وہ آپ کے لیے خیر خواہانہ جذبات رکھتے ہوں ۔ نہیں ، بلکہ اس پر عمل ہر صورت میں ضروری اور فرض ہے کوئی رشتہ دار آپ سے عداوت رکھتا ہے، بدسلوکی کرتا ہے، تعلقات کو صحیح طریقے سے نبھانے کی کوشش نہیں کرتا اور آپ کے برادرانہ جذبات کو آپ کی کمزوری اور ذلت پر محمول کرتا ہے، تاہم غریب اور مستحق امداد بھی ہے، تو ایسے رشتہ دار کی امداد اور اعانت اس کی تمام ترکوتاہیوں کے باوجود آپ پر فرض ہے۔ محض ان رشتہ داروں کی کفالت و اعانت، جو آپ سے نیاز مندانہ تعلقات رکھیں ، شریعت کی نظر میں صلہ رحمی نہیں ، بلکہ یہ ﴿ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ (الرحمٰن 60:55) کی ایک صورت ہے… اس سلسلے میں تفصیلات سے قطع نظر یہاں صرف دو حدیثیں درج کی جاتی ہیں ، ان سے مسئلہ بآسانی سمجھ میں آسکتا ہے:
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیِٔ، وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہُ وَصَلَہَا))
’’بدلے میں حسن سلوک کرنے والا، صلہ رحمی کرنے والا نہیں (کہ وہ تعلق رکھے تو تم بھی رکھو۔) اصل صلہ رحمی کرنے والا یہ ہے کہ اس سے قطع رحمی کیے جانے کے باوجود صلہ رحمی کرتا ہے۔‘‘[1]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک آدمی نے آکر عرض کیا، یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں ، میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں ، لیکن وہ قطع رحمی کرتے ہیں ۔ میں ان
[1] صحیح البخاري، الأدب، باب لیس الواصل بالمکافیء، حدیث: 5991۔