کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 34
ہی تھا، دونوں نے اپنے اپنے شوہر اور یتیم بھتیجوں پر صدقہ کرنے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا۔ آپ نے فرمایا: ((نَعَمْ! لَہُمَا أَجْرَانِ، أَجْرُ الْقَرَابَۃِ وَ أَجْرُ الصَّدَقَۃِ)) ’’ہاں اس طرح انہیں دو اجر ملیں گے۔ ایک صدقے کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔‘‘[1] اسی طرح جب آیت ﴿ لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ ﴾ ’’تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے (فی سبیل اللہ) خرچ نہ کرو۔‘‘[2] نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا میرے پاس سب سے زیادہ قیمتی او رمحبوب مال بیر حاء کا باغ ہے۔ (خیال رہے کہ مدینہ میں یہ کھجور کا ایک باغ تھا) اس آیت پرعمل کرتے ہوئے میں اس کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں ۔ آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے تقسیم کردیں ۔ آپ نے اس وقت انہیں یہ مشورہ دیا کہ اسے اپنے ہی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں ۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ 11. بدسلوکی کے باوجود اہل قرابت سے حسن سلوک اور صلہ رحمی کی تاکید پھر اس صلہ رحمی (رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی) پر عمل صرف اسی صورت پر
[1] سنن النسائي، الزکاۃ، باب الصدقۃ علی الأقارب، حدیث: 2584، و الإرواء، حدیث: 884,878۔ [2] اٰل عمران 92:3۔