کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 31
شوکت کے مظاہر کے لیے غریبوں سے الگ اپنی بستیاں بسا کر اپنے الگ جزیرے بنا لینا یقینا شرعی لحاظ سے ناپسندیدہ ہے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((اِنّ اللّٰہ عزوجل فرض عَلَی الْاَغْنِیَائِ فِی اَمْوَالِھِمْ مَا یَکْفِی الْفُقَرَائَ، فَاِنْ جَاعُوْا اَوْعَرُوْا اَوْجَھِدُوْا فَبِمَنْعِ الْاَغْنِیَائِ، وَحَقٌّ عَلَی اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اَنْ یُحَاسِبَھُمْ وَیُعَذِّبَھُمْ))
’’اللہ عزوجل نے مال داروں کے مالوں میں اتنی مقدار میں خرچ کرنا فرض کیا ہے جو فقراء کی ضروریات کے لیے کافی ہو جائے۔ اور اگر وہ (اتنی مقدار میں خرچ کرنے سے گریز کریں جس کے نتیجے میں ان کی ضروریات پوری نہ ہوں اور وہ) بھوکے رہیں یا ان کے جسم لباس سے محروم رہیں یا کوئی ا ور تکلیف و مشقت ان کو لاحق ہو جائے (تو اس کے ذمے دار اغنیاء ہوں گے) اور اللہ تبارک و تعالیٰ پر لازم ہے کہ وہ ان مال داروں کا محاسبہ کرے اور ان کو عذاب دے۔‘‘[1]
الغرض صاحب استطاعت کو زکاۃ کی ادائیگی کے بعد یہ سمجھ کر کہ میں نے فرض ادا کر دیا ہے، مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ بلکہ ہر ضرورت کے موقعے پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
﴿ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ﴾
’’جس طرح اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے، اسی طرح تم بھی مخلوق پر احسان کرو۔‘‘[2]
[1] کتاب الاموال، لابی عبید، رقم: 1909، ص: 596,595۔
[2] القصص 77:28۔