کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 30
یارو مددگار چھوڑ دیا، اس کو حالات کے تھپیڑوں کے سپرد کر دیا اور اس کی طرف دستِ تعاون دراز نہ کیا۔ یہی وہ سنگ دلی ہے جو اللہ کو ناپسند ہے۔
ایسے ہی موقعوں کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
((مَنْ کَانَ مَعَہُ فَضْلُ ظَھْرٍٍ، فَلْیَعُدْ بِہِ عَلٰی مَنْ لَا ظَھْرَلَہُ۔ وَمَنْ لَہُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْیَعُدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لَا زَادَلَہُ۔ قَالَ: فَذَکَرَ مِنْ اَصْنَافِ الْمَالِ مَاذَکَرَ، حَتّٰی رَائَینَا اَنَّہُ لَاحَقَّ لِاَحَدٍ مِنَّا فی فَضْلٍ))
’’جس کے پاس فالتو سواری ہو تو وہ اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو، جس کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ زادِ راہ (سفری کھانا وغیرہ) ہو تو وہ اس کو دے دے جس کے پاس زادِ راہ نہ ہو۔‘‘ حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی اور بھی قسمیں بیان فرمائیں، حتی کہ ہم یہ سمجھ گئے کہ ہم میں سے کسی کا بھی اپنی ضرورت سے زیادہ چیز پر کوئی حق نہیں ہے۔‘‘[1]
اس قسم کی احادیث کی بابت کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اخلاقیات سے ہے، یہ بات ایک حد تک صحیح ہے لیکن یہ اس وقت صحیح ہے جب زکاۃ کی رقم علاقے کے ضرورت مندوں کے لیے کافی ہو جائے لیکن جب اور جہاں غربت اور اس سے پیدا شدہ مسائل بہت زیادہ ہوں اور زکاۃ کی رقم ان کے لیے یکسرنا کافی ہو تو پھر بھی ان اخلاقی ہدایات کو اہمیت نہ دینا اور غرباء کی ضروریات اور ان کے مسائل کے حل کے لیے امراء و اغنیاء کا اپنی دولت پر سانپ بن کر بیٹھ جانا بلکہ اپنی دولت و امارت اور اپنی شان و
[1] صحیح مسلم، اللقطۃ، باب استحباب المؤاساۃ بفضول المال، حدیث: 1728۔