کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 28
’’یہ رائے حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ کے مذہب کے خلاف ہے اور صحابۂ کرام قرآن کے مفہوم کو زیادہ جاننے والے تھے اور وہی اس بات کے بھی زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے اور یہی مذہب امام طاؤس اور امام شعبی کا بھی ہے کہ مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں ، جیسے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، صلہ رحمی کرنا، مہمان کی مہمان نوازی کرنا، اسی طرح جانوروں کے بارے میں بھی جو حقوق احادیث میں آئے ہیں ۔‘‘[1]
بنابریں کسی علاقے میں اگر زکاۃ کی رقم ضرورت مندوں کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہو تو اغنیاء کا فرض ہے کہ وہ زکاۃ کے علاوہ بھی اپنا مال معاشرے اور اہل قرابت کے ضرورت مندوں پر خرچ کریں ، بصورت دیگر وہ عنداللہ قابل مؤاخذہ ہو سکتے ہیں ۔ اسی قسم کی صورت حال کے لیے حافظ ابن حزم نے بھی لکھا ہے:
((وفرض علی الاغنیاء من اہل کل بلد ان یقوموا بفقرائھم ویُجبرھم السلطان علٰی ذلک، وان لم تقم الزکوات بھم ولافی سائر اموال المسلمین بھم، فیقام لھم بمایأکلون من القوت الذی لابدّمنہ، ومن اللباس للشتاء والصیف بمثل ذلک، وبمسکن یکنھم من المطر والصیف والشمس وعیون المارّۃ))
’’ہر علاقے کے اغنیاء کا فرض ہے کہ وہ اپنے فقراء کی کفالت کا اہتمام کریں (اور اگر وہ اپنی یہ ذمے داری پوری نہ کریں ) تو بادشاہ وقت ان کو اس پر مجبور
[1] کتاب الاموال، مسئلہ: 930، ص: 358۔