کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 27
((قولہ تعالٰی: ﴿ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ﴾ استدل بہ من قال: ان فی المال حقا سوی الزکاۃ وبھا کمال البر))
’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
’’مومن اپنا مال اس کی محبت کے باوجود خرچ کرتا ہے۔‘‘[1]
سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ زکاۃ کے علاوہ بھی مال میں (ضرورت مندوں کا) حق ہے اور اسی سے ایک مسلمان نیکی کے درجۂ کمال کو پہنچتا ہے۔‘‘
بعض صحابہ کا موقف
اس آیت کے حوالے سے بعض صحابۂ کرام مثلاً حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی موقف تھا، چنانچہ امام ابو عبیدہ ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے جو کہتے ہیں کہ زکاۃ کے حکم نے ہر اس صدقے کو منسوخ کر دیا ہے جو قرآن میں بیان ہوا ہے، لکھتے ہیں :
((فھذا غیر مذھب ابن عمروابی ہریرۃ، واصحاب رسول اللَّہ صلي اللّٰه عليه وسلم اعلم بتاویل القرآن واولٰی بالا تباع، وھو مذہب طاؤس واشعبی ان فی المال حقوقاً سوی الزکاۃ، مثل برالوالدین وصلۃ الرحم وقری الضیف، مع ماجاء فی المواشی من الحقوق))
[1] تفسیر القرطبی ۔