کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 26
اس کے بعد فرمایا:
﴿ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ ﴾
’’وہ نماز قائم کرتا ہے اور زکاۃ ادا کرتا ہے۔‘‘
یعنی مومن زکاۃ ادا کرنے کے علاوہ مذکورہ ضرورت مندوں پر بھی اللہ کی رضا کے لیے یا مال کی محبت کے باوجود خرچ کرتا ہے۔
اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ زکاۃ کے علاوہ بھی خرچ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے اور اسے اہل ایمان کی خاص صفت بیان فرما رہا ہے۔ اگر آتی المال … سے بھی زکاۃ ہی مراد لی جائے تو پھر کلامِ الٰہی میں بلاوجہ تکرار لازم آتی ہے جبکہ اللہ کا کلام اس سے پاک ہے۔ چنانچہ علامہ رشید رضا مصری اس آیت کی تفسیر میں تفسیر ’’المنار‘‘ میں اپنے استاذ الشیخ محمد عبدہ کا قول نقل فرماتے ہیں :
((قال الاستاذ الامام: وھذہ الایتاء غیر ایتاء الزکاۃ الآتی، وھو رکن من ارکان البر، وواجب کالزکاۃ، وذلک حیث تعرض الحاجۃ الی البذل، فی غیر وقت اداء الزکاۃ …))
’’پہلا اِیتاء (ضرورت مندوں پر خرچ کرنا) بعد میں آنے والے اِیتاء (زکاۃ) کے علاوہ ہے اور یہ ارکانِ بِرّ (نیکی اور حسن سلوک کرنے کے ارکان) میں سے ایک رکن ہے اور زکاۃ ہی کی طرح واجب ہے اور یہ جذبۂ حسن سلوک ہر اس موقع پر بروئے کار آئے گا جب بھی (اور جہاں بھی) مال خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی اور یہ ادائے زکاۃ کے وقت کے علاوہ ہو گا …‘‘
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :