کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 25
﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴾
’’اور ہمارے دیے ہوئے مال میں سے انفاق (خرچ) کرتے ہیں ۔‘‘[1]
نیز فرمایا:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ﴾
’’اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی سے انفاق (خرچ) کرو۔‘‘[2]
مالِ فئی کی تقسیم کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ﴾[3]
مال فئی رشتے داروں ، یتیموں ، مساکین اور مسافروں پر خرچ کیا جائے۔ ’’تاکہ یہ مال مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے۔‘‘ یعنی اللہ کے دیے ہوئے مال کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ وہ صرف اغنیاء کی تجوریوں ہی میں محفوظ نہ رہے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ ضرورت مندوں تک پہنچایا جائے۔
اسی بات کی تاکید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ فرمایا:
﴿ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ ﴾
’’(مومن) اپنا مال اس کی محبت کے باوجود (یا اللہ کی محبت کی وجہ سے) رشتے داروں ، یتیموں ، مساکین، مسافر، سائلین اور گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرتا ہے۔ ‘‘[4]
[1] البقرۃ 3:2۔
[2] البقرۃ 267:2۔
[3] الحشر 7:59۔
[4] البقرۃ 177:2۔