کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 22
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ جانورں (اونٹ، گائے اور بکریوں ) کی زکاۃ کے لیے ’’حق‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس میں یہ نکتہ مضمر معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم) کہ جن کے پاس یہ جانور مقررہ نصاب کی تعداد میں ہوں ، توپھر بھی وہ زکاۃ ادا نہ کریں تو وہ مذکورہ وعید کے مستحق ہوں گے۔ لیکن جن کے پاس یہ جانور نصاب سے کم ہوں تو ان کے مالکوں کے لیے پھر بھی یہ ضروری ہے کہ ان کا حق ادا کرتے رہیں ، یعنی ضرورت مندوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کا معاملہ کریں ، ضرورت مندوں کو کچھ دودھ ہی دوھ کر دے دیں ۔ اگر وہ اس سے گریز کریں گے تو قیامت کے دن وہ بھی مذکورہ وعید کے مستحق قرار پاسکتے ہیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ فرض کی عدم ادائیگی تو جرم ہے ہی۔ لیکن بعض دفعہ اخلاق کریمانہ سے بے اعتنائی کرتے ہوئے ضرورت مندوں سے سنگ دلانہ برتاؤ کرنا اور ان سے رحم و کرم کا معاملہ نہ کرنا بھی عند اللہ جرم ہوسکتا ہے، اس لیے اللہ نے جس کو بھی جس حیثیت کا مالک بنایا ہے (قطع نظر اس کے کہ وہ صاحب نصاب ہے یا نہیں ) وہ اپنے سے کم تر حیثیت کے افراد کے ساتھ حسن سلوک ہی کا معاملہ کرے، ضرورت مندوں سے جس حد تک تعاون کرسکتا ہے، ضرور کرے۔ حتی کہ زکاۃ ادا کرچکنے کے بعد بھی کوئی دینی ضرورت پیش آئے یا کوئی ضرورت مند سامنے آئے، تو اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہ کرے۔ اہل ایمان و تقویٰ کی یہی صفت اللہ نے بیان فرمائی ہے: ﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾ ’’اور ہمارے دیے ہوئے مال میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ۔‘‘[1]
[1] البقرۃ 3:2۔