کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 19
بِقُرُونِہَا، کُلَّمَا جَازَتْ أُخْرَاہَا رُدَّتْ عَلَیْہِ أُوْلَاہَا حَتَّی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ)) ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یا (فرمایا) قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ یا جیسے بھی آپ نے حلف اٹھایا۔ (یعنی حلف کے الفاظ صحابی کو یاد نہیں رہے) جس آدمی کے پاس بھی اونٹ، گائیں یا بکریاں ہوں ، وہ ان کا حق (زکاۃ) ادا نہ کرے تو قیامت کے دن ان جانوروں کو لایا جائے گا، یہ جانور دنیا کے مقابلے میں زیادہ قد آور اور زیادہ موٹے تازہ ہوں گے، وہ اسے اپنے پیروں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے ٹکریں مارتے ہوئے گزریں گے، جب آخر تک سب گزر جائیں گے، تو پہلے والے پھر اسی طرح اس پر لوٹائے جائیں گے حتی کہ لوگوں کے درمیان فیصلے ہونے تک اس کے ساتھ یہی معاملہ جاری رہے گا۔‘‘[1] صحیح مسلم کی روایت میں یہ بات زیادہ تفصیل سے بیان ہوئی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَا مِنْ صَاحِبِ ذَہَبٍ وَّلَا فِضَّۃٍ، لَا یُؤَدِّي مِنْہَا حَقَّہَا، إِلَّا إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ، صُفِّحَتْ لَہُ صَفَائِحُ مِنْ نَّارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَیْہَا فِي نَارِ جَہَنَّمَ، فَیُکْوٰی بِہَا جَنْبُہُ وَ جَبِینُہُ وَ ظَہْرُہُ، کُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِیدَتْ لَہُ، فِي یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَۃٍ، حَتَّی یُقْضٰی بَیْنَ الْعِبَادِ، فَیَرٰی سَبِیلَہُ، إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَ إِمَّا إِلَی النَّارِ،
[1] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب زکاۃ البقر، حدیث: 1460۔