کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 188
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی جن کی فقاہت مُسلّمہ ہے، واقعۂ زینب سے یہی سمجھا ہے کہ یہاں صدقے سے مراد صدقۂ واجبہ (زکاۃ) ہی ہے، اسی لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہلی حدیث وہ ’’باب الزکاۃ علی الاقارب‘‘ کے تحت لائے ہیں ۔ اولاد کو بھی زکاۃ دی جاسکتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو جو جواب دیا: ((زَوْجُکِ وَ وَلَدُکِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِہِ عَلَیْہِمْ)) ’’تیرا خاوند اور تیری اولاد تیرے صدقے کی، دوسروں کے مقابلے میں ، زیادہ حق دار ہے۔‘‘ ہی سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ عورت اپنی اولاد کو بھی زکاۃ دے سکتی ہے، بشرطیکہ بچوں کا باپ یعنی اس کا خاوند مسکین، فقیر قسم کا ہو اوروہ بچوں کی کفالت کرنے سے قاصرہو۔ البتہ باپ اپنی اولاد پر زکاۃ کی رقم خرچ نہیں کرسکتا، اس لیے کہ ان کے نان نفقہ کا ذمے دار باپ ہے، اس لیے جن کا نفقہ اس کے ذمے ہے، وہ ان کو زکاۃ نہیں دے سکتا۔ ماں چونکہ اولاد کے نفقے کی ذمے دار نہیں ہے، اس لیے اولاد اگرمصارف زکاۃ میں آتی ہے، تو ماں ان کو زکاۃ دے سکتی ہے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی گود میں جو یتیم بچے زیر پرورش تھے، وہ دوسری روایات کی رُو سے وہ ان کے بھانجے اور بھتیجے تھے (فتح الباري: 415/3) ان پر زکاۃ کی رقم خرچ کرنا جائز تھا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اسی طرح اگر کسی عورت کے پاس اس کے پہلے خاوند کی اولاد ہو، تو وہ بھی زکاۃ کی رقم ان پر خرچ کرسکتی ہے۔ جیسے حضرت