کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 186
اس پر صادق آتی ہے یاغارم کی ذیل میں آتا ہے، یعنی قرآن کریم کے بیان کردہ مصارفِ ثمانیہ میں سے کسی مصرف کا وہ مصداق ہے، تو عورت ایسے خاوند کو زکاۃ دے سکتی ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ عید میں عورتوں کو بالخصوص صدقہ و خیرات کی تلقین فرمائی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور پوچھا: ((یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! إِنَّکَ أَمَرْتَ الْیَوْمَ بِالصَّدَقَۃِ وَ کَاَنَ عِنْدِيْ حُلِيٌّ لِي فَأَرَدْتُّ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِہِ، فَزَعَمَ ابنُ مَسعُودٍ أَنَّہُ وَوَلَدَہُ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتُ بِہِ عَلَیْہِمْ)) ’’اے اللہ کے پیغمبر! آج آپ نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا ہے اور میرے پاس میرا زیور ہے، میں اس کو صدقہ کرنا چاہتی ہوں تو (میرے شوہر) ابن مسعود کا خیال یہ ہے کہ وہ اور ان کی اولاد میرے صدقے کی، دوسروں کے مقابلے میں ، زیادہ حق دار ہے؟۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صَدَقَ ابْنُ مسعودٍ، زَوْجُکِ وَوَلَدُکِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِہِ عَلَیْہِمْ)) ’’ابن مسعود نے سچ کہا ہے، تیرا خاوند اور تیری اولاد تیرے صدقے کی، دوسروں کے مقابلے میں ، زیادہ حق دار ہے۔‘‘[1]
[1] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الاقارب، حدیث: 1462۔