کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 182
بِمَ یَا رَسُولَ اللّٰہ! قَالَ: تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ وَ تَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ))
’’اے عورتوں کی جماعت! تم (زیادہ) صدقہ کیا کرو! اس لیے کہ جہنم کے مشاہدے میں میرے سامنے یہ بات آئی ہے کہ وہاں اکثریت عورتوں کی ہے‘‘ عورتوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری (بھی بہت) کرتی ہو۔‘‘[1]
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عورتوں کو کثرت سے صدقہ و خیرات کا اہتمام کرنا چاہیے، علاوہ ازیں اس کی جو دو وجہیں بیان کی گئی ہیں ، ان سے بھی بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
عورت کا خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
جو عورت صاحبِ حیثیت ہو، اس کے لیے تو صدقہ کرنے کے حکم پر عمل کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن جو عورت صاحبِ حیثیت نہ ہو، وہ صدقہ کس طرح کرے؟ اس کے پاس تو اپنامال ہی نہیں ہے،اگر کچھ ہے تو وہ خاوند کا مال ہے جو وہ بیوی کو گھریلو اخراجات کے لیے دیتا ہے، اس اعتبار سے وہ اس کی امانت ہے۔ اس میں سے وہ خرچ کرسکتی ہے یا نہیں ؟ نیز اس میں سے وہ خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ کرسکتی ہے یا نہیں ؟ اس کی بابت دو قسم کی احادیث آتی ہیں جو بظاہر ایک دوسرے کی مخالف ہیں لیکن حقیقت میں ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ، مثلاً: ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِذَا أَنْفَقَتِ الْمرأَۃُ مِنْ طَعَامِ بَیْتِہَا غَیْرَ مُفْسِدَۃٍ کَانَ لَہَا أَجْرُہَا بِمَا
[1] صحیح البخاري، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، حدیث: 304۔