کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 180
بات کی دلیل ہے کہ ٹیکس (ضریبہ) اور ہے اور زکاۃ اور۔ ٭ بہر حال مذکورہ امور سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زکاۃ اسی طرح ایک عبادت ہے جس طرح نماز، روزہ، حج اور دیگر عبادات ہیں اور جس طرح عبادت کی ہیئت (کیفیت و کمیت) میں تبدیلی کا کوئی مجاز نہیں ، اسی طرح شرحِ زکاۃ میں بھی کمی بیشی کا کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے۔ پھر ان سب سے بڑھ کر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ چودہ سو سال سے زیادہ عرصے سے امت مسلمہ زکاۃ ادا کرتی آرہی ہے۔ بڑے بڑے انقلاب آئے، حالات و ظروف بدلے، لیکن تغیر حالات سے کسی نے یہ استدلال نہیں کیا کہ زکاۃ کی شرح میں تبدیلی کر دی جائے۔ حالات صرف آج ہی نہیں بدلے۔ یہ تو بدلتے ہی آئے ہیں ۔ ؎ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں لیکن ان کے ساتھ ساتھ اگر اسلامی احکام کے بھی بدلنے کی اجازت ہوتی، جس طرح کہ آج کل کے متجددین کی سعی اور خواہش ہے، تو مذہب اسلام میں وہ تبدیلیاں کبھی کی رونما ہو چکی ہوتیں جن کے لیے آج یہ متفکرین و متجددین پیچ و تاب کھا رہے ہیں ۔[1]
[1] منقول از ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور جلد: 1979,30ء ۔