کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 178
مختصراً وہ امور درج ذیل ہیں ۔ ٭ جن پانچ ارکان پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ’بُنِیَ الْاِسْلَامَ عَلٰی خَمْسٍ‘ ان میں کلمۂ توحید کے بعد حج، نماز، روزہ اور زکاۃ ہے اوران چاروں ارکان کی شرعی حیثیت عبادت کی ہے۔ ان میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی جاسکتی۔ ٭ قرآن میں بیشتر مقامات پر نماز کے ساتھ زکاۃ کا بھی ذکر ہے۔ قرآن بار بار ﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾کے ساتھ ﴿ وَآتُوا الزَّكَاةَ﴾ کی بھی تلقین کرتا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ اس کی نظر میں زکاۃ بھی اسی طرح عبادت ہے جس طرح نماز ہے۔ ٭ خلافت صدیقی میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا سب سے پہلا اجماع، منکرین زکاۃ کے واجب القتل ہونے پر ہوا اور ان سے کافروں کی طرح جنگ کی گئی۔ ان کے مَردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا گیا۔ اگر زکاۃ کی حیثیت ٹیکس کی ہوتی تو ٹیکس کے انکار سے کوئی مسلمان، کافر اور واجب القتل نہیں ہوتا دراں حالیکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان مانعین زکاۃ کو باجماع واجب القتل قرار دیا اور ان سے جنگ کی۔ ٭ زکاۃ صرف مسلمان پر فرض ہے، اسلامی قلم رَو میں بسنے والے کافروں پر نہیں ۔ حالانکہ اگر یہ ٹیکس ہوتا تو بلا تفریق مسلم و کافر، اسلامی قلم رو میں بسنے والے ہر شخص پر عائد ہوتا نہ کہ صرف مسلمانوں پر۔ اس سے واضح ہے کہ زکاۃ عبادت ہے جس کا مکلف مسلمان ہی ہے۔ ٭ قرآن نے زکاۃ کی وہ مدات بھی بیان کر دی ہیں جہاں زکاۃ صرف کی جائے گی اور وہ آٹھ مصارف ہیں ۔ ان کے علاوہ کسی جگہ زکاۃ خرچ نہیں کی جاسکتی اور کسی