کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 171
جاتے ہیں ۔ (بلکہ کئی علماء تو زکاۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک کو شرط قرار دیتے ہیں ) حالانکہ اس مال کے پیدا کرنے میں ان کی محنت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اس لیے آیت کا ایسا مفہوم جو قرآن ہی کے دیگر احکام و قوانین سے ٹکرائے کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ اور یوں ذاتی و زمینی ملکیت کی نفی کا اثبات، خود قرآن کے متعدد احکام کی نفی کیے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے تو علماء کہتے ہیں حدیث کا انکار، قرآن کے انکار کو بھی مستلزم ہے اور حجیت حدیث کا منکر ٹولہ قرآن کا بھی منکر ہے۔ یہی حال دیگر آیات کا ہے جن سے دجل و تحریف کر کے اداریے میں کام لیا گیا ہے۔ سب کا جائزہ لیا جائے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا، مذکورہ آیت کی وضاحت ہی سے بخوبی اداریہ نگار کے مبلغ علم، اندازِ استدلال اور قرآنی تحریف کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مقصد اس کی اس ساری کدوکاوش کا یہ ہے کہ زکاۃ کے اُس مفہوم سے انکار کر دیا جائے جس پر قرآن و حدیث کی روشنی میں آج تک مسلمان عامل چلے آرہے ہیں اس لیے کہ اس مفہوم سے بہر حال ذاتی ملکیت ہی کا اثبات ہوتا ہے جسے اشتراکیت گوارا نہیں کرتی اور ’’مفکر قرآن‘‘ ہیں کہ ’’قرآنی نظام ربوبیت‘‘ کے عنون سے اشتراکیت کو اسلامی معاشرے میں نافذ کرانے کے درپے ہیں ۔ اس لیے بیچارے مجبور ہیں کہ احادیث صحیحہ کا انکار کیا جائے، تعامل و تواتر امت کو نظر انداز کیا جائے۔ اس سے بھی کام بنتا نظر نہ آئے تو آیات میں معنوی تحریف کر کے مطلب برآری کر لی جائے۔ اقبال مرحوم نے ایسے ہی ’’مفکرین‘‘ کے لیے مختلف موقعوں پر کہا تھا ؎ خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں کس درجہ ہوئے فقیہانِ حرم بے توفیق