کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 170
گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ کسی کا بوجھ دوسرے پر ڈال دیا جائے گا اور یقینًا اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
قرآن مجید کی یہ آیت جو اپنے سیاق و سباق میں سعی و عمل برائے آخرت کے لیے آئی ہے، اسے ’’طلوع اسلام‘‘ کے اداریہ نویس نے اپنے خالص مادی، دنیوی اور مزعومہ معاشی نظریے پر چسپاں کر کے یہ اشتراکی نظریہ کشید کیا ہے کہ ’’انسان صرف اسی کا حق دار ہے جس کے لیے وہ محنت کرے۔ اس نظام میں کسی کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی ہر ایک کو اس کے کام کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ یعنی اس نظام میں ہر فرد کا سب ہو گا، محنت کش ہو گا، کام کرے گا۔‘‘[1]
یہ وہی خالص کمیونسٹ اصول ہے جس کی رو سے کوئی شخص اپنی محنت کمائی (Earnedincome)کے سوا کسی چیز کا مالک نہیں ہو سکتا اگر اس آیت کا یہی مطلب ہو جیسا کہ اداریہ نویس نے لیا ہے تو احادیث کو تو تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے (کہ یہ اس کی حجیت ہی کے منکر ہیں ) خود قرآن کے کئی احکام سے یہ آیت ٹکرائے گی۔
جیسے وراثت کا حکم ہے جس کی تفصیلات قرآن میں بھی ہیں کہ ایک شخص کے ترکے میں سے بہت سے افراد حصہ پاتے ہیں اور وہ اپنے حصے کے جائز مالک قرار پاتے ہیں حالانکہ یہ میراث ان کی اپنی محنت کی کمائی نہیں ہوتی حتی کہ ایک شیر خوار بچہ بھی میراث کے مال کا مالک قرار پاتا ہے جبکہ اس کی محنت کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اسی طرح زکاۃ و صدقات کے احکام ہیں جن کی رو سے ایک آدمی کا مال دوسروں کو محض ان کے شرعی و اخلاقی استحقاق کی بنا پر ملتا ہے اور وہ بھی اس کے جائز مالک سمجھے
[1] ماہنامہ ’’طلوع اسلام‘‘ لاہور، مئی 79ء، ص: 2۔