کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 169
کا نصاب، اس کی شرح، اس کا وقت اور دیگر تفصیلات بیان فرمائی ہیں ۔ دوسرے، ذاتی ملکیت کی نفی کرنی پڑے گی کیونکہ طلوعِ اسلامی مفہوم کی رو سے افرادِ معاشرہ کے ایک ایک چیز کی ذمے دار حکومت ہے۔ خود کسی فرد کو فاضل دولت اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہی نہیں ۔ تیسرے، ملکیت زمین کا بھی انکار کرنا پڑے گا، کیونکہ ملکیت زمین کی صورت میں عشر نکالنے کا مسئلہ پیدا ہو گا۔ چنانچہ ’’طلوع اسلام‘‘ کے اداریہ نویس نے پوری جرأت سے اپنے مذکورہ اداریے میں ان تمام چیزوں کا انکار کیا ہے۔ احادیث کو رد کرنے کے لیے تو ان حضرات کو یہ آسان سا صدری نسخہ مل گیا ہے کہ جس حدیث کو نہ ماننا ہوبغیر کسی ادنی تأمل کے کہہ دیا جائے کہ یہ حدیث وضعی (من گھڑت) ہے۔ یہاں بھی یہی پیٹنٹ فارمولا استعمال کر کے ایسی تمام احادیث کو وضعی قرار دیا گیا ہے جن میں جمع شدہ مال پر زکاۃ نکالنے کا حکم ہے۔ بنابریں ذاتی ملکیت اورزمین کی ملکیت کی نفی کے لیے قرآن کی متعدد آیات میں معنوی تحریف کی گئی ہے، مثلاً: ﴿ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ﴿٤٠﴾ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ ﴾ ’’انسان کو وہی ملے گا جو اس کی سعی ہے اور اس کی سعی ضرور دیکھی جائے گی۔ پھر اس کی پوری جزاء اسے دی جائے گی۔‘‘[1] یہ آیت آخرت کے متعلق ہے کہ وہاں انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے کمایا ہو
[1] النجم 41-39:53۔