کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 168
بہر حال ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ ماہ مئی 1979ء کے طلوع اسلام میں ’’زکاۃ‘‘ کا قرآنی مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ: ’’زکاۃ عربی زبان میں نشوونما کو کہتے ہیں لہٰذا ’’ایتائے زکاۃ‘‘ کے معنی ہوں گے سامانِ نشوونما مہیا کرنا اور یہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ افرادِ معاشرہ کی نشوونما کا سامان فراہم کرے اور یہ سامانِ نشوونما صرف ’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘ ہی کو شامل نہیں بلکہ اس میں وہ تمام اسباب و ذرائع شامل ہیں جن سے انسانی صلاحیتوں کی نشوونما (Devlopment)ہوتی ہے۔ قرآن کی آیت﴿الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ ﴾ (الحج 41:22) کا بھی مفہوم یہی ہے۔ یعنی یہ نہیں کہا کہ جب ان کی حکومت قائم ہو گی تو یہ لوگوں سے زکاۃ لیں گے۔ کہا یہ گیا ہے کہ وہ زکاۃ دیں گے۔ (افرادِ معاشرہ کی نشوونما کا سامان فراہم کریں گے۔)‘‘ (ملخص) زکاۃ کا یہ خانہ ساز مفہوم جو چودھویں صدی کے غلام احمد پرویز کی ذہنی اُپج کا شاہکار ہے، ظاہر ہے اس مفہوم سے قطعاً مختلف ہے جو قرآن کے شارح اوّل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا اور امت کو سمجھایا، اس کی رو سے آپ نے اس کا نصاب، اس کی شرح اور اس کا وقت بتلایا، تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین و تبع تابعین، فقہاء و محدثینs نے اس کے مطابق عمل کیا اور اس وقت سے اب تک پوری امت مسلمہ ایتائے زکاۃ پر عمل کر رہی ہے۔ اب جب یہ کہا جائے گا کہ زکاۃ کا تو یہ مطلب ہی نہیں ہے کہ مال جمع ہو، اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں سے ڈھائی فیصد مال نکال دو بلکہ قرآن سے تو اس کا مطلب کچھ اور نکلتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے ایک تو ان تمام احادیث کا انکار کرنا پڑے گا جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ