کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 167
مئی 1979ء کے شمارے میں اس رسالے میں اسلام کی ایک اور مسلمہ عبادت، ’’زکاۃ‘‘ کا صریح انکار کیا گیا ہے اور ستم یہ ہے کہ اس متواتر عبادت کا انکار بھی ’’زکاۃ کا قرآنی مفہوم‘‘ کے خوشنما عنوان سے کیا گیا ہے۔ حدیث کے مأخذِ اسلام اور حجت شرعیہ تسلیم کرنے سے انکار کے پس پردہ اصل چیز اس ٹولے کے نزدیک ہے ہی یہ کہ اس کے بعد قرآن کے جس حکم، قانون اور ہدایت کو جو معنی بھی پہنا دیے جائیں اور اس کی کیسی ہی دُور ازکار تاویل رکیک کر لی جائے، اس کی کچھ گنجائش نکل آئے، کیونکہ قرآن کے ساتھ حدیث رسول کو بھی حسب ارشاد الٰہی: ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ﴾ (النحل 44:16) سامنے رکھا جائے تو پھر من مانی کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ حدیث شریف کی رو سے تو صلاۃ (نماز) کا مفہوم بھی متعین ہے اور زکاۃ کی صورت بھی مقرر، جس کی پشت پر امت مسلمہ کا چودہ سو سالہ عملی تواتر بھی موجود ہے۔ ان کا انکار کیوں کر کیا جاسکتا ہے؟ لیکن جب ان مسلمات کا انکار کر دیا گیا تو اس کے بعد اسلام کو مسخ کرنے کا راستہ ان کے لیے کھل گیا۔ اب پرویزی ’’قرآنی مفہوم‘‘ کی رو سے نہ نماز کا مطلب وہ ہے جس پر چودہ سو سال سے مسلمان عمل کرتے آرہے ہیں اور نہ زکاۃ کا وہ مطلب ہے جو مسلمان انفاقِ مال کی ایک متعین صورت سمجھتے آئے ہیں۔ اسی طرح دیگر عقائد اسلامیہ اور مسلمات (جیسے جنت، دوزخ، ملائکہ اور معراجِ جسمانی وغیرہ) کا حال ہے۔ ان کے نزدیک ان کی وہ صورتیں غلط ہیں جن پر مسلمان چودہ سو سال سے ایمان رکھتے اور ان پر عمل پیرا چلے آرہے ہیں اور نام، ان سب خلافِ اسلام و عقائدِ اسلامیہ سرگرمیوں کا ’’طلوع اسلام‘‘ ہے۔ سبحان اللہ! گویا، برعکس نہندنام زنگی کافور، والا معاملہ ہے۔