کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 16
’’صدقے سے مال میں کمی نہیں آتی، عفو اور درگزر سے آدمی نیچا نہیں ہوتا، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے سربلند اور اس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے فروتنی اور عاجزی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے رفعت وبلندی عطاکرتا ہے۔‘‘[1]
٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، کون سا صدقہ اجر میں زیادہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا:
((أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیحٌ شَحِیحٌ تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأْمَلُ الْغِنٰی، وَلَا تُمْہِلْ حَتَّی إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ قُلْتَ: لِفُلَانٍ کَذَا، وَ لِفُلَانٍ کَذَا، وَ قَدْ کَانَ لِفُلَانٍ))
’’زیادہ اجروثواب والا صدقہ وہ ہے جو تندرستی کی حالت میں اس وقت کیا جائے جب انسان کے اندر دولت کی چاہت اور اسے اپنے پاس رکھنے کی حرص ہو اور اسے خرچ کی صورت میں محتاجی کا خطرہ اور (روک رکھنے کی صورت میں ) دولت مندی کی امید ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم سوچتے اور ٹالتے رہو یہاں تک کہ دست اجل تمہارا گلا آن دبوچے اور اس وقت تم مال کے بارے میں وصیت کرنے لگو کہ اتنا مال فلاں کو اور اتنا فلاں کو (اللہ کے لیے) دے دیا جائے، دراں حالیکہ اس وقت وہ مال (تمہاری ملکیت سے نکل کر) فلاں (یعنی وارثوں ) کا ہوچکا ہو۔‘‘[2]
[1] صحیح مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع، حدیث: 2588۔
[2] صحیح مسلم، الزکاۃ، باب بیان أن أفضل الصدقۃ صدقۃ الصحیح الشحیح، حدیث: 1032۔