کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 157
بصورت دیگر جس طریقے یا مقدار سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے یا انہیں استغناء حاصل ہوسکتا ہے، وہ طریقہ اختیار کرنا اور اس مقدار کو اپنانا جائز بلکہ ضروری ہوگا۔
اس نقطۂ نظر کی اہمیت و ضرورت
ہم نے اس نکتۂ زیر بحث کو قدرے تفصیل سے اس لیے بیان کیا ہے کہ آج کل اصحابِ ثروت بالعموم زکاۃ کا مستحق صرف انھی لوگوں کو سمجھتے ہیں جو ظاہری طور پر مسکین و فقیر قسم کے ہوں ۔ لیکن وہ سفید پوش لوگ جن کی قلیل آمدنیوں سے ان کے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے، بعض دفعہ وہ اپنا علاج کرانے سے یا اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے سے یا اور اسی قسم کی دیگر ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ، ان کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔ یہ طبقہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتا، نہ کرسکتا ہے اور لوگ بھی انہیں غیر مستحق سمجھتے ہیں ، حتی کہ مال دار رشتے دار بھی، جن سے ان کے حالات مخفی نہیں ہوتے، ان کی امداد نہیں کرتے۔ نتیجتاً وہ نہایت تنگی کی زندگی گزارتے اورتلخئ اوقات کا شکار رہتے ہیں اور بعض لوگ تو خود کشی تک کر لیتے ہیں ۔
اس لیے ضروری ہے کہ اصحابِ ثروت لوگ اپنا رویہ بدلیں اور فقراء و مساکین کے ساتھ، وہ اپنے ان رشتے داروں پر بھی نظر رکھیں جو اپنی محدود اور قلیل آمدنی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوں ، وہ بغیر بتلائے زکاۃ کی رقم سے ان کی امداد کرسکتے ہیں اور ان کو ایسا کرنا چاہیے، تاکہ اس طبقے کی مشکلات بھی کم ہوں ۔ ان کے لیے ایسا کرنا بالکل جائز ہے، جیسا کہ علماء کی تصریحات سے واضح ہے۔ اس قسم کے لوگوں میں