کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 156
ہو اور وہ اسے ڈرائے اور اسے (بلا جواز سوال کرنے کی ہولناکی سے) خبردار کرے، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، پھر اگر وہ خیال کرے کہ اس کا کوئی ذریعۂ آمدنی نہیں ہے یا وہ عیال دار ہے اس کی کمائی اسے کافی نہیں ہوتی، تو وہ اس کی بات قبول کرلے اور اسے (زکاۃ کے مال سے) دے دے۔‘‘[1]
نواب صدیق حسن خان بھی اس قسم کی روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
((یُمْکِنُ أَنْ یُّطَبَّقَ بَیْنَ الْأَحَادِیثِ بِاخْتِلَافِ الْأَحْوَالِ، وَالْأَصْلُ اعْتِبَارُ مَعْنَی الْحَاجَۃِ وَالاِسْتِغْنَائِ بِالْکَسْبِ الْمُتَیَسَّرِ))
’’ان احادیث کے درمیان اس طرح تطبیق دینا ممکن ہے کہ انہیں مختلف احوال پر محمول کرلیا جائے اور اصل اعتبار، حاجت کے معنی و مفہوم کا اور میسر کمائی کے ذریعے سے استغناء کا ہے۔‘‘[2]
مطلب یہ ہے کہ احادیث میں جو یہ آتا ہے کہ جس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) ہو، اس کے لیے سوال جائز نہیں ۔ یا جو شخص جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اور انہیں بیچ کر اپنا گزارہ کرسکتا ہے، اس کے لیے بھی سوال کرنے کی بجائے یہی راستہ اختیار کرنا بہتر ہے، یا جس کے پاس صبح یا شام کی خوراک کے بقدر موجود ہو اس کے لیے بھی سوال کرنا صحیح نہیں ہے ،تو اصل اعتبار، حاجت اوراستغناء کا ہے۔ اس زمانے میں مذکورہ مقدار سے حاجت پوری ہوجاتی تھی یا استغناء (لوگوں سے بے نیازی) حاصل ہو جاتا تھا۔ آج بھی اگر مذکورہ طریقوں سے یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو ٹھیک ہے،
[1] شرح السنۃ: 82,81/6بتحقیق شعیب الارناؤوط ۔
[2] الروضۃ الندیۃ شرح الدرر البہیۃ: 508/1۔