کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 155
مال کی زیادتی اور ہمیشہ سامان خوراک حاصل کرتے رہنا ہے، تو بلاشبہ وہ جہنم کی آگ زیادہ کررہاہے اگر چہ وہ اتنا نادار ہے کہ صبح یا شام کی خوراک سے زیادہ اس کے پاس نہیں ہے۔‘‘[1] امام بغوی، دو آدمیوں والی مذکورہ روایت، جس میں ان کے سوال کرنے کا ذکر ہے، بیان کر کے لکھتے ہیں : ((فِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ القَوِيَّ الْمُکْتَسِبَ الَّذِي یُغْنِیہِ کَسْبُہُ لَا یَحِلُّ لَہُ الزَّکَاۃُ وَ لَمْ یَعْتَبِرِ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم ظَاہِرَ الْقُوَّۃِ دُونَ أَنْ ضَمَّ إِلَیْہِ الْکَسْبَ، لِأَنَّ الرَّجُلَ قَدْ یَکُونُ ظَاہِرَ الْقُوَّۃِ غَیْرَ أَنَّہُ أَخْرَقُ لاَکَسْبَ لَہُ فَتَحِلُّ لَہُ الزَّکَاۃُ وَ إِذَا رَأَی الإِْمَامُ السَّائِلَ جَلْدًا قَوِیًّا شَکَّ فِي اَمْرِہِ وَ أَنْذَرَہُ وَ أَخْبَرَہُ بِالْأَمْرِ، کَمَا فَعَلَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَإِنْ زَعَمَ أَنَّہُ لَا کَسْبَ لَہُ أَوْ لَہُ عِیَالٌ لَا یَقُومُ کَسْبُہُ بِکِفَایَتِہِمْ قَبِلَ مِنْہُ وَأَعْطَاہُ)) ’’اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ توانا آدمی جو کمائی کرنے والا ہے اور اس کی کمائی اسے کافی ہوجاتی ہے، اس کے لیے زکاۃ جائز نہیں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کمائی کو ملائے بغیر صرف ظاہری قوت کا اعتبار نہیں کیا، اس لیے کہ بعض دفعہ آدمی ظاہری طور پر توانا ہوتا ہے، لیکن وہ بے وقوف بے ہنرا ہوتا ہے جس کا کوئی ذریعۂ آمدنی نہیں ہوتا، تو ایسے شخص کے لیے زکاۃ جائز ہے اور جب امام، سائل کو مضبوط اور توانا دیکھے، اسے اس کے مستحق ہونے میں شک
[1] کتاب الأموال، ص: 553، رقم: 1738۔