کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 154
اور جو مصروفِ جہاد ہے اسے مالِ غنیمت سے رزق مہیا کیا جاتا ہے جس سے اس کے صبح وشام گزرتے ہیں ، جیسا کہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال تھا۔ پس اس (عدم استحقاق) میں ضابطہ ایک اوقیہ یا پچاس درہم ہیں اور جو شخص بازاروں میں بوجھ اٹھاکر کمانے والا ہے یا لکڑیاں کاٹ یا جمع کرکے اس کی بیع (خرید فروخت) کرتا ہے یا اس قسم کا کوئی کام کرنے والا ہے، تو ان کے لیے ضابطہ اتنی خوراک کا ہونا ہے جو ان کی صبح یا شام کے لیے کافی ہو۔‘‘[1] اور امام ابو عبید قاسم بن سلام احادیث میں بیان کردہ غنٰی (تونگری) کی مختلف مقداروں کا ذکر کرکے ان سے ایک اصولی بات یہ مستنبط کرتے ہیں ۔ ((وَلٰکِنْ مَّعْنَاہُ فِیمَا نُرٰی عَلَی مَا ہُوَ مُبَیَّنٌ فِي الْحَدِیثِ نَفْسِہِ ’أَنَّہُ مَنْ سَأَلَ مَسْأَلَۃً لِیَتَکَثَّرَ بِہَا‘ یَقُولُ، فَإِذَا لَمْ یَکُنْ شَأْنُ ہٰذَا مِنْ مَّسْأَلَتِہِ أَنْ یَّنَالَ مِنْہَا قَدْرَ مَا یَکُفُّہُ وَ یُعِفُّہُ ثُمَّ یُمْسِکُ، وَ لٰکِنَّہُ یُرِیدُ أَنْ یَّجْعَلَہَا إِزَادَتَہُ وَ طُعْمَتَہُ أَبَدًا فَإِنَّہُ یَسْتَکْثِرُ مِنْ جَہَنَّمَ وَ إِنْ کَانَ مُعْدِمًا لَا یَمْلِکُ إِلَّا قَدْرَ مَا یُغَدِّیہِ أَوْ یُعَشِّیہِ)) ’’جہاں تک ہمارا خیال ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کامطلب ہے، جیسا کہ خود حدیث سے بھی یہی بات واضح ہے کہ ’’جس نے مال زیادہ کرنے کے لیے سوال کیا…‘‘ گویا آپ فرمارہے ہیں کہ جب سوال سے مقصد مال کا زیادہ کرنا نہیں ہے، بلکہ صرف اتنا مال حاصل کرنا ہے جو اس کو (آئندہ) سوال سے روک دے اور اس سے بچالے، پھر وہ رک جائے۔ لیکن اگر اس کا ارادہ
[1] حجۃ اللّٰہ البالغۃ: 46/2۔