کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 152
الْغِنٰی وَالْقُوَّۃَ عَلَی الْاِکْتِسَابِ عَدْلَیْنِ، وَ إِنْ لَّمْ یَکُنِ الْقَوِيُّ ذَا مَالٍ فَہُمَا الْاٰنَ سِیَّانِ إِلَّا أَنْ یَّکُونَ ہٰذَا الْقَوِيُّ مَجْدُودًا عَنِ الرِّزْقِ مُحَارِفًا، وَ ہُوَ فِي ذٰلِکَ مُجْتَہِدٌ فِي السَّعْيِ عَلٰی عِیَالِہِ حَتَّی یُعْجِزَہُ الطَّلَبُ، فَإِذَا کَانَتْ ہٰذِہِ حَالُہُ فَإِنَّ لَہُ حِیْنَئِذٍ حَقًّا فِي أَمْوَالِ الْمُسْلِمِینَ، یَقُولُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی (وَ فِي أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ)‘ ’’میرے خیال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں (مال دار اور قوی) کو حرمت زکاۃ میں برابر کر دیا ہے اور مال داری اورکمانے کی قوت، دونوں کو ایک جیسا قراردیا ہے، اگرچہ قوی آدمی صاحب مال نہ ہو، لیکن وہ اور صاحب مال دونوں اب برابر ہیں ۔ ہاں اگر قوی شخص (کے پاس کمائی کے معقول ذرائع نہیں ہیں اور وہ) رزق سے محروم ہے حالانکہ اس کے لیے وہ اپنی امکانی سعی بروئے کار لاتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے بال بچوں کی کفالت نہیں کرپاتا۔ تو ایسی حالت میں مسلمانوں کے مالوں میں اس کا حق ہے اور وہ قرآن کریم کی اس آیت کا مصداق ہے کہ ’’مسلمانوں کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے۔‘‘[1] اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ((وَجَائَ فِي تَقْدِیرِ الْغُنْیَۃِ الْمَانِعَۃِ مِنَ السُّؤَالِ أَنَّہَا أُوقِیَۃٌ أَوْخَمْسُونَ دِرْہَمًا وَجَائَ أَیْضًا أَنَّہَا مَا یُغَدِّیْہِ أَوْ یُعَشِّیہِ وَہٰذِہِ
[1] کتاب الأموال، رقم: 1753۔