کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 151
’’اگر تم چاہو تو تمہیں دے دیتا ہوں ، لیکن زکاۃ میں مال دار اور طاقت ور کمائی کرنے والے کا کوئی حصہ نہیں ۔‘‘[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نہایت بلیغ اور پُر حکمت ہیں ، ان الفاظ میں ایک طرف آپ نے قوی مکتسب کو مال دار کے مساوی قرار دے کر اسے زکاۃ کا غیر مستحق قرار دیا اور دوسری طرف انہیں زکاۃ کی رقم دینے کا اشارہ بھی فرمایا۔ کیونکہ آپ نے انہیں صحت مند اور توانا تو دیکھا، لیکن آپ کو ان کے حالات کاعلم نہیں تھا، ممکن ہے قوی و توانا ہونے کے باوجود وہ ایسے حالات سے دو چار ہوں کہ ان کے لیے سوال کرنا اور زکاۃ کی رقم لینا جائز ہو، اس لیے آپ نے ان کے لیے جواز کا راستہ بھی کھلا رکھا اور اسے ان کے لیے حرام قرار نہیں دیا۔ اگر ان کے لیے زکاۃ کی رقم لینا حرام ہوتا تو آپ یہ کبھی نہ فرماتے کہ ’’اگر تم چاہو تو تمہیں دے دیتا ہوں ‘‘ بلکہ صاف الفاظ میں ان کو زکاۃ کی رقم دینے سے انکار فرمادیتے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جس طرح غنی (مال دار) کے لیے بعض حالات میں زکاۃ کا مال لینا جائز ہے، جیسے مجاہد، غارم اور ابن السبیل (مسافر) ہیں ۔ اسی طرح بعض حالات میں قوی مکتسب کے لیے بھی زکاۃ جائز ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے یہ جواز کب ہوگا؟ جب وہ محنت اور جدوجہد کے باوجود اتنی کمائی نہ کرسکے کہ جس سے اس کی اور اس کے اہل وعیال کی ضروریاتِ زندگی پوری ہوسکیں ۔ امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے اس نکتے کی اس طرح وضاحت فرمائی ہے: ((فَأُرَاہُ صلي اللّٰه عليه وسلم قَدْ سَوَّی بَیْنَہُمَا فِي تَحْرِیمِ الصَّدَقَۃِ عَلَیْہِمَا وَجَعَلَ
[1] سنن أبي داود، الزکاۃ، باب من یعطٰی من الصدقۃ وحد الغنٰی، حدیث: 1633۔