کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 146
3. غیر مسلم
زکاۃ خالص مسلمانوں کا حق ہے یعنی مسلمانوں کے اغنیاء سے وصول کرکے مسلمان فقراء و مساکین پر خرچ کی جائے گی، جیسا کہ حدیث معاذ میں صراحت ہے:
((تُؤخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ وَ تُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِہِمْ))
’’زکاۃ مسلمانوں کے اغنیاء سے وصول کرکے ان کے فقراء پر تقسیم کی جائے گی۔‘‘[1]
تاہم نفلی صدقات سے غیر محارب (مسلمانوں سے نہ لڑنے والے)غیر مسلموں کے ساتھ تعاون کیا جاسکتا ہے۔جیسے قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿ لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ﴾
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ تمہیں نیک سلوک کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں لڑائی نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔‘‘[2]
اسی طرح جب حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی مشرک ماں کی بابت صلہ رحمی، یعنی حسن سلوک کرنے کا پوچھا، تو آپ نے فرمایا:
((صِلِيْ أُمَّکِ))
’’اپنی ماں کے ساتھ صلح رحمی (یعنی حسن سلوک) کر۔‘‘[3]
[1] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، حدیث: 1395۔
[2] الممتحنۃ 8:60۔
[3] صحیح البخاري، الأدب، باب صلۃ الوالد المشرک، حدیث: 5978، و صحیح مسلم، الزکاۃ، باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الأقربین…،حدیث: 1003و اللفظ لمسلم ۔