کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 145
((لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِغَنِيٍّ إِلَّا لِخَمْسَۃٍ: لِغَازٍ فِيْ سَبِیلِ اللّٰہِ أَوْ لِعَامِلٍ عَلَیْہَا أَوْ لِغَارِمٍ أَوْ لِرَجُلٍ اشْتَرَاہَا بِمَالِہِ أَوْ لِرَجُلٍ کَانَ لَہُ جَارٌ مِّسْکِینٌ فَتُُصُدِّقَ عَلَی الْمِسْکِینِ فَأَہْدَاہَا الْمِسْکِینُ لِلْغَنِيِّ))
’’پانچ قسم کے مال داروں کے لیے زکاۃ حلال ہے، ایک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، دوسرا زکاۃ وصول کرنے والا، تیسرا غارم، (یعنی صلح کی خاطر تاوان ادا کرنے والا) چوتھا اپنے مال سے زکاۃ کی چیز خریدنے والا اور پانچواں وہ شخص، جس کا پڑوسی کوئی مسکین ہو، وہ مسکین زکاۃ کے مال سے اس (غنی) کو ہدیہ دے۔‘‘[1]
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کو اس طرح بیان کیاہے (جسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے) کہ اللہ تعالیٰ نے دو مقصد کے لیے زکاۃ مقرر فرمائی ہے۔ ایک اس لیے کہ مسلمانوں کی حاجتیں پوری ہوں ۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ اسلام کی مدداور اس کی تقویت ہو، پس جو مدات اسلام کی تائید کے لیے ہیں ، ان میں سے غنی اور فقیر دونوں کو زکاۃ دی جائے گی، جیسے مجاہد وغیرہ ہیں اور مؤلفۃ القلوب کو دینا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔[2]
اور متعفف علماء اور طلبائے علومِ دینیہ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں جیسا کہ پہلے صراحت گزری ہے۔
[1] سنن أبي داود، الزکاۃ، باب من یجوز لہ أخذ الصدقۃ وہو غني، حدیث: 1635۔
[2] مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام احمد بن تیمیۃ: 40/25، طبع قدیم ۔